پشاور:مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے پرتشدد انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے خطرے پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے واضح کیا کہ انتہا پسندی محض ایک نظریاتی مسئلہ نہیں بلکہ یہ مختلف سماجی، تاریخی، اقتصادی اور نفسیاتی عوامل کا نتیجہ ہے۔ اس کے تدارک کے لیے محض سیکیورٹی اقدامات کافی نہیں بلکہ ایک طویل المدتی اور جامع پالیسی درکار ہے جو تمام متعلقہ اداروں اور اسٹیک ہولڈرز کی ہم آہنگی کے ساتھ تشکیل دی جائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے خیبر پختونخوا سینٹر آف ایکسیلنس برائے انسدادِ انتہا پسندی (KPCVE) اور اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم (UNODC) کے اشتراک سے منعقدہ مشاورتی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ورکشاپ کا مقصد پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے ایک مؤثر، مربوط اور پائیدار پالیسی سازی کو فروغ دینا تھا۔ اس موقع پر پالیسی سازوں، ماہرین تعلیم، سول سوسائٹی کے نمائندوں، متعلقہ ماہرین اور دیگر اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی تاکہ اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے کر مشترکہ حکمت عملی تشکیل دی جا سکے۔
اپنے خطاب میں بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا کہ پرتشدد انتہا پسندی کو گہرائی سے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کا سماجیاتی (سوشیالوجیکل) اور بشریاتی (انتھروپولوجیکل) پس منظر جانیں۔ انتہا پسندی کسی بھی معاشرے میں محض نظریاتی بنیادوں پر نہیں پنپتی بلکہ یہ سماجی پیچیدگیوں، تاریخی عوامل اور مختلف اقداری نظاموں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ انہوں نے تاریخی تناظر میں اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہر دور میں اور ہر خطے میں انتہا پسندی مختلف اشکال میں موجود رہی ہے، جو وقت اور حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔ آج کے دور میں مذہبی انتہا پسندی نمایاں ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی، لسانی اور سیاسی انتہا پسندی بھی دنیا کے مختلف حصوں میں تیزی سے بڑھ رہی ہے، جس پر توجہ دینا ضروری ہے۔
بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے پرتشدد انتہا پسندی کی بنیادی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے وضاحت کی کہ سماجی ناانصافی، سیاسی بےچینی، اقتصادی محرومیاں اور نظریاتی استحصال وہ عوامل ہیں جو انتہا پسندی کو جنم دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ مذہب کو بعض اوقات انتہا پسندی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں انتہا پسندی بنیادی طور پر ایک انسانی رویہ ہے جو کسی بھی نظریے کے تحت پیدا ہو سکتا ہے۔
انہوں نے انسٹیٹیوشنل کمزوری کو ایک بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا کہ کمزور ریاستی اور سماجی ادارے انتہا پسند نظریات کی افزائش میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جب ریاستی ادارے اپنی ذمہ داریاں مؤثر طریقے سے ادا نہیں کرتے تو اس کے نتیجے میں ناانصافی، عدم استحکام اور عوام میں بداعتمادی پیدا ہوتی ہے، جو انتہا پسند نظریات کے فروغ کا سبب بنتی ہے۔ اس تناظر میں، مضبوط ادارے ہی ایسے نظریات کے پھیلاؤ کو روکنے اور لوگوں کو انتہا پسندی کی طرف جانے سے بچانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے اس تاثر کی نفی کی کہ انتہا پسندی صرف مشرقی یا اسلامی ممالک کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی دنیا میں بھی انتہا پسندی مختلف اشکال میں موجود ہے، اور تاریخی طور پر مغربی طاقتوں نے بھی نظریاتی بنیادوں پر تشدد کا سہارا لیا ہے۔ انہوں نے مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ کروسیڈ وارز، نوآبادیاتی نظام، اور جدید جنگی مہمات بھی مخصوص نظریات کی بنیاد پر کیے گئے تشدد کی مثالیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم واقعی پرتشدد انتہا پسندی کے خاتمے کے خواہاں ہیں تو ہمیں اپنے تمام تعصبات سے بالاتر ہو کر غیرجانبدار اور حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنا ہوگا۔
انہوں نے پرتشدد انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ایک مؤثر حکمت عملی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں فوری اور سطحی ردعمل کے بجائے طویل المدتی پالیسیوں پر توجہ دینی ہوگی۔ اس حوالے سے انہوں نے تجویز دی کہ تعلیمی نظام میں تنقیدی سوچ اور برداشت کو فروغ دیا جائے تاکہ نوجوان نسل کو انتہا پسند تنظیموں کے اثر و رسوخ سے محفوظ رکھا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی مواقع پیدا کرنا بھی انتہائی ضروری ہے کیونکہ مالی محرومیاں اکثر نوجوانوں کو انتہا پسند گروہوں کی طرف دھکیل دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ، سیاسی اور سماجی اصلاحات کے ذریعے عوام کو ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ وہ مایوسی اور محرومی کا شکار نہ ہوں۔
اپنے خطاب کے اختتام پر بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے زور دیا کہ پرتشدد انتہا پسندی کو محض طاقت کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس کے لیے نظریاتی، سماجی، اقتصادی اور تعلیمی سطح پر متوازن اور مؤثر اقدامات ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت، سول سوسائٹی، تعلیمی ادارے اور میڈیا کو مل کر اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ایک پرامن، متوازن اور ترقی پسند معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔
ورکشاپ میں سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن کامران احمد آفریدی، کے پی سی وی ای کے چیف کوآرڈینیشن آفیسر ڈاکٹر آیاز خان، ڈی جی کے پی سی وی ای ڈاکٹر محمد قاسم، یو این او ڈی سی کے سینئر ایڈوائزر سید حسین حیدر اور دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔ مقررین نے پرتشدد انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی مرتب کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اس مقصد کے لیے سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے درمیان تعاون کو مستحکم کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے تعلیمی اداروں کے کردار کو خصوصی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا کہ نوجوان نسل کی فکری تربیت اور مثبت نظریات کی آبیاری کے ذریعے انتہا پسندی کے رجحانات کو مؤثر طریقے سے روکا جا سکتا ہے۔
یہ ورکشاپ نہ صرف پالیسی سازی میں ہم آہنگی پیدا کرنے کا ایک اہم موقع ثابت ہوئی بلکہ اس نے حکومت، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی تنظیموں کے درمیان ایک مضبوط شراکت داری کے امکانات بھی واضح کیے۔ تمام شرکاء نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ پرتشدد انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں جاری رکھیں گے تاکہ ایک محفوظ اور خوشحال معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔