پشاور:وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیربرائے اطلاعات و تعلقات عامہ خیبرپختونخوابیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ پاکستان کی تاریخ کا بدنام ترین، غیر آئینی اور غیر جمہوری فیصلہ ہے، جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔ یہ فیصلہ دراصل پاکستان تحریک انصاف کو دیوار سے لگانے کی ایک مذموم کوشش ہے، مگر ہم ہر فورم پر اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کریں گے۔ انہوں نے یہ بات ضلع سوات میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کی آڑ میں عوامی رائے کا قتل ہو رہا ہے۔ مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینا عوامی مینڈیٹ پر کھلا ڈاکہ ہے، اور جب وقت آتا ہے تو عدل کرنے والے ادارے قوم کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہیں۔ بیرسٹر سیف نے اے این پی کے رہنما اور سابق وزیراعلیٰ حیدر خان ہوتی کے حالیہ بیان کو سراہتے ہوئے کہا کہ حیدر ہوتی نے سپریم کورٹ کے غلط فیصلے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی مخصوص نشستیں قبول کرنے سے انکار کر کے جمہوریت کی بالادستی کا ثبوت دیا ہے۔ ان کا اصولی مؤقف قابلِ تحسین ہے، اور وہ جمہوری سوچ رکھنے والوں کے لیے ایک مثال ہیں۔ بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن سپریم کورٹ کے غلط فیصلے سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والوں میں سے ہیں، مگر اسلام کے دعویدار بن کر دوسروں کو درس دے رہے ہیں۔ اگر واقعی سچے ہیں تو ان نشستوں سے دستبردار ہو کر دکھائیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے بانی چیئر مین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی جا رہی ہے۔ ان پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے، گرفتاری عمل میں لائی گئی، اور جیل میں رکھا گیا تاکہ تحریک انصاف کی مقبولیت کو زبردستی دبایا جا سکے۔ تاہم قوم آج بھی عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے، اور انشاء اللہ وہ سرخرو ہوں گے۔ مشیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ فضل الرحمن بتائیں، کب ڈی آئی خان گئے؟ صرف بیانات دینا کافی نہیں جبکہ ایمل ولی خان پہلے یہ واضح کریں کہ بلوچستان سے سینیٹر کیسے بنے؟ اسٹیبلشمنٹ کے سائے تلے لائے جانے والے دوسروں پر تنقید کا کوئی اخلاقی جواز نہیں رکھتے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ جمہوریت پسند جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ناجائز طریقے سے ملنے والی تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں سے دستبردار ہو جائیں، کیونکہ یہ ان کا نہ آئینی حق ہے، نہ اخلاقی۔ عوام کی دی گئی نشستیں چھیننا، عوامی اعتماد سے کھلا دھوکہ ہے۔ امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دہشت گردی صرف فوجی آپریشن سے ختم نہیں ہو سکتی، یہ ایک سماجی، سیاسی اور انتظامی مسئلہ ہے، جس کے حل کے لیے عوامی شمولیت اور ریاستی اداروں کی سنجیدگی ضروری ہے۔ دہشت گرد ریاست کے خلاف لڑ رہے ہیں، تاہمُ افسوس کی بات ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وفاق اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ وفاق نہ مالی معاونت فراہم کر رہا ہے، نہ تکنیکی مدد دے رہا ہے، ہمیں اس جنگ میں اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ وفاقی ادارے تو تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کارکنوں کی گرفتاریاں عمل میں لا رہے ہیں، مگر جو دہشتگرد سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں، ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی اور ایپکس کمیٹی کی سفارشات کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے وفاقی حکومت کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم افغانستان کے ساتھ تجارت چاہتے ہیں تاکہ سرحدی علاقوں میں معاشی سرگرمیاں بڑھ سکیں، مگر ہمیں روکا جاتا ہے۔ ادھر پنجاب اور سندھ کے وزیر اعلیٰ چین سے تجارتی معاہدے کرتے ہیں تو کوئی سوال نہیں اٹھتا، یہ دوہرا معیار ناقابل قبول ہے۔