مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر ڈاکٹرسیف کا ریسکیو 1122 کے ہیڈکوارٹرز پشاور کا دورہ
پشاور:وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات و تعلقات عامہ بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے ریسکیو 1122 کے ہیڈکوارٹرز پشاور کا دورہ کیا، جہاں ڈائریکٹر جنرل محمد طیب عبداللہ نے انہیں ادارے کی کارکردگی، نمایاں کامیابیوں اور صوبے بھر میں ایمرجنسی ریسپانس کو مزید بہتر بنانے کے اقدامات پر تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بیرسٹر ڈاکٹر سیف کو آگاہ کیا گیا کہ ریسکیو 1122 نے 2010 میں اپنے قیام کے بعد سے اب تک 15 لاکھ 95 ہزار 974 افراد کی جانیں بچائی ہیں۔ حالیہ سوات واقعے کے تناظر میں 23 الگ الگ انکوائریاں شروع کی گئیں،
جن میں سے 19 مکمل ہو چکی ہیں۔ ایمرجنسی تیاریوں کے سلسلے میں، صوبے بھر میں حساس دریا کناروں پر 60 واٹر ریسکیو پوائنٹس قائم کیے گئے ہیں، جہاں ہر پوائنٹ پر دو تربیت یافتہ غوطہ خور تعینات کیے گئے ہیں اور انہیں کشتیوں سمیت تمام ضروری آلات فراہم کیے گئے ہیں۔ ادارے کی آپریشنل صلاحیت میں اضافے کے لیے 117 موجودہ غوطہ خوروں کے علاوہ 129 نئے غوطہ خور بھرتی کیے گئے ہیں، جس کے بعد کل تعداد 246 ہو گئی ہے۔ 27 جون 2025 سے اب تک ریسکیو 1122 نے ڈوبنے کے 73 مختلف واقعات کا فوری اور مؤثر جواب دیا، جن میں 292 افراد کو کامیابی سے بچایا گیا۔ریسکیو اہلکاروں سے خطاب کرتے ہوئے بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے ادارے سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے ایمرجنسی میں ریسکیو ریسپانڈرز کی بے لوث خدمات کو سراہا اور اس بات پر زور دیا کہ عوامی تنقید کے باوجود ان کی قربانیوں کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ اُن کا کہنا تھا کہ سوات واقعے کے بعد میں نے بارہا محسوس کیا کہ ریسکیو 1122 کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا گیا۔ ایک افسوسناک واقعہ ضرور پیش آیا، لیکن اسی ضلع میں ادارے کی جانب سے بچائی گئی بے شمار جانوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے ریسکیو ٹیم کو حقیقی فرسٹ ریسپانڈرز قرار دیتے ہوئے ایمرجنسی اہلکاروں کو درپیش ذہنی اور جذباتی دباؤ کو تسلیم کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایمرجنسی صورتحال جذباتی طور پر نہایت حساس ہوتی ہے۔ آپ کا کام صرف جسمانی طاقت ہی نہیں بلکہ جذباتی برداشت بھی مانگتا ہے۔ جیسے پولیس اور ایمرجنسی ڈاکٹرز اکثر عوامی تنقید کا سامنا کرتے ہیں باوجود اس کے کہ وہ معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، آپ بھی ایک نہایت حساس ذمہ داری کے حامل ہیں جس میں صبر، ہمدردی اور حوصلے کی ضرورت ہے۔
بیرسٹر سیف نے 2005 کے زلزلے کے بعد قومی رضاکارانہ تحریک کی قیادت کے ذاتی تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان میں رضاکارانہ خدمات کو منظم کرنے کے لیے ایک جامع فریم ورک تجویز کیا۔ انہوں نے نوجوانوں کی صلاحیت کو قومی اثاثہ قرار دیتے ہوئے تعلیمی اداروں میں ایمرجنسی ریسپانس کی تربیت کو باقاعدہ نصاب کا حصہ بنانے پر زور دیا۔“ہمارے نوجوانوں میں جذبے کی کوئی کمی نہیں۔ ہم نے دیکھا کہ زلزلے کے دوران ہزاروں طلبہ خود سے متاثرہ علاقوں میں پہنچے۔ ہمیں صرف ایسا نظام چاہیے جو اس جذبے کو محفوظ اور مؤثر طریقے سے منظم کر سکے۔”انہوں نے ریسکیو 1122 قیادت پر زور دیا کہ وہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سی پی آر اور بنیادی ایمرجنسی ریسپانس کی تربیت کے باقاعدہ کورسز متعارف کروائیں، اور ایسے طلبہ کو تعلیمی کریڈٹ یا سرکاری ملازمتوں میں ترجیحی نمبر دینے کی سکیم بھی تجویز کریں، جیسا کہ ماضی میں این سی سی پروگرام تھا۔“اگر ریسکیو 1122 اس منصوبے کو باضابطہ طور پر حکومت کو تجویز کرے تو ہم اس کی مالی، ادارہ جاتی، اور ہر سطح پر بھرپور سرپرستی کریں گے۔ آئیں ایک قومی تحریک بنائیں جہاں ہر شہری کسی بحران کی صورت میں مدد کی پہلی لائن بنے۔”انہوں نے جدید آلات، مقامی تربیت کے مواقع، اور تربیت یافتہ رضاکاروں کا ڈیٹا بینک قائم کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا تاکہ پیشہ ورانہ ٹیموں کے ساتھ عام شہری بھی ہنگامی حالات میں مؤثر کردار ادا کر سکیں۔بیرسٹر سیف نے ریسکیو 1122 کو مکمل سرکاری معاونت کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ مالی معاونت سے آگے بڑھ کر، ہم پیشہ ورانہ روابط، قانون سازی میں ترامیم، اور ایک مستقل انفراسٹرکچر کی تشکیل کے لیے تیار ہیں جو آپ کے کام کو پائیدار بنیاد فراہم کرے۔ آپ کی خدمات صرف ضروری نہیں بلکہ قابلِ فخر ہیں۔