پشاور:مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ والدین کی جانب سے بچوں کی تربیت کو نہ صرف ایک فن بلکہ ایک سائنس کے طور پر دیکھنا چاہیے، جس کے لیے معاشرتی اور نفسیاتی حرکیات کی گہری سمجھ اور جدید چیلنجز کے ساتھ ہم آہنگی ضروری ہے تاکہ پائیدار اور مثبت تبدیلیاں لائی جا سکیں۔”والدین کی جانب سے بچوں کی تربیت” کے عنوان سے منعقدہ ایک ورکشاپ کی اختتامی تقریب سے اپنے کلیدی خطاب میں بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے مستقبل کی نسلوں کی تشکیل اور معاشرتی چیلنجز، خصوصاً پرتشدد انتہا پسندی کے مقابلے میں موثر تربیت کے کردار پر روشنی ڈالی۔ یہ ورکشاپ آغا خان فاؤنڈیشن، نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف وومن، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سائیکالوجی، اور دیگر شراکت داروں کے اشتراک سے منعقد ہوئی۔ بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا کہ بچوں کی تربیت ایک معاشرتی اور سماجی معاملہ ہے، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پرورش کا معیار اس طرح کا ہونا چاہیے جو موجودہ چیلنجز سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کو معاشرے میں بامعنی شراکت کے قابل بنائے۔ بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے بچوں کی تربیت اور پرتشدد انتہا پسندی کے مقابلے کے درمیان ایک اہم ربط کی نشاندہی کی، ان کا کہنا تھا کہ دونوں گہرے طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معیاری تربیت انتہا پسندی کو کم کرنے کا ایک طاقتور ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ یہ سماجی طور پر باشعور اور اخلاقی طور پر مضبوط افراد کی پرورش کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے تیزی سے بدلتے سماجی ڈھانچے کے تناظر میں بچوں کی تربیت اور پر تشدد انتہا پسندی کے مقابلے کا تعلق انتہائی اہم ہے۔ بچوں کی پرورش کے سائنسی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے، بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپی معاشروں کے تبدیلی کے دور کا حوالہ دیا، جب پرانی اقدار ختم ہوئیں اور نئی اقدار نے جنم لیا، جس میں والدین کی جانب سے بچوں کی تربیت کو نفسیاتی نظم و ضبط کے طور پر گہرائی سے جانچنے کی راہ ہموار ہوئی۔ ڈیانا بومرینڈ، ڈینیئل سیگل اور دیگر اسکالرز جیسے علمبرداروں نے نفسیاتی گفتگو کے اندر فریم ورک تیار کرکے اس شعبے کو نمایاں طور پر آگے بڑھایا۔ ان کے کام سے ”مشاہداتی پرورش” (perceived parenting) کا تصور ابھرا، جو تربیت کے طریقوں کو بچے کے نقطہ نظر سے سمجھنے پر زور دیتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ سائنسی گفتگو تربیت کی تحقیق میں رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔ بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے زور دیا کہ والدین کی جانب سے بچوں کی پرورش کو سماجی-نفسیاتی، سماجی-اقتصادی اور سماجی-سیاسی منظرناموں کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ انہوں نے معاشرتی تبدیلی کے محرکات کو سمجھنے اور نئی نسل کو ان تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے تیار کرنے کے لیے سائنسی نقطہ نظر کی وکالت کی۔ نفسیاتی پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے پرورش کے مختلف انداز بیان کیے، جن میں مستند، آمرانہ، اجازتی، اور غفلت آمیز پرورش شامل ہیں۔ انہوں نے مستند پرورش کو سب سے مؤثر قرار دیا، کیونکہ یہ آزادی اور کنٹرول کا توازن قائم کرتی ہے، جو بچوں کی منظم نشوونما کو فروغ دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ توازن بچوں کو ذمہ دار اور اہل افراد کے طور پر ترقی دینے کے لیے بہت اہم ہے۔” جدید دور میں بچوں کی تربیت کے چیلنجز پر بات کرتے ہوئے،
بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے سوشل میڈیا اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) جیسے ابھرتے ہوئے عالمی رجحانات کے لیے بچوں کو تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے والدین سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کو ان قوتوں کو معاشرتی بھلائی کے لیے استعمال کرنے کے قابل بنائیں، نہ کہ تباہی کے لیے۔ انہوں نے کہا، ”ہمیں ایسی نسلیں تیار کرنی ہیں جو آر ٹیفیشل اینٹیلجنس اور سوشل میڈیا کی طاقت کو معاشرے کی اصلاح اور تعمیر کے لیے استعمال کر سکیں۔” بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے ثقافتی اور مذہبی تناظر کا بھی حوالہ دیا، حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے قول کا ذکر کرتے ہوئے کہ ”اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت ان کے زمانے کے تقاضوں کے مطابق کرو، نہ کہ اپنے زمانے کے، کیونکہ ان کا دور مختلف ضروریات کا حامل ہوگا۔” قرآنی آیت ”ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا” (سورہ التین) کا حوالہ دیتے ہوئے، بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے انسان کی منفرد صلاحیتوں جیسے شعور، عقل، اور اخلاقی تمیز پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ یہ الہی تحفہ انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے اور بچے کی صحیح اور غلط کی تمیز کرنے کی صلاحیت کو پروان چڑھانے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے انتہا پسندی کی معاشرتی جڑوں پر بھی بات کی، اسے مایوسی اور محرومی سے جوڑتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ جس ماحول میں سماجی ہم آہنگی یا اجتماعی اقدار کی کمی ہوتی ہے، وہاں کے افراد انتہا پسندی کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ”مایوسی اس وقت جنم لیتی ہے جب افراد تنہائی کا شکار ہوتے ہیں۔ بچوں کی ایسی تربیت جو اجتماعی شعور اور اخلاقی مضبوطی کو فروغ دیتی ہے، ان رجحانات کا مقابلہ کر سکتی ہے۔” اسلامی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہوئے، بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا ذکر کیا، جس میں کہا گیا کہ انسان کی میراث تین چیزوں سے جاری رہتی ہے: صدقہ جاریہ، مفید علم، اور نیک اولاد جو اپنے والدین کے لیے دعا مانگتی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ایسی میراث صرف ایسی موثر تربیت کے ذریعے ممکن ہے جو مادی ضروریات سے بالاتر ہو اور اخلاقی، روحانی، اور فکری طاقت پیدا کرے۔بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے انسانی شعور کو جبلی رویوں سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہا کہ انسان، جانوروں کے برعکس، مابعدالطبیعیاتی غور و فکر اور معاشرتی شراکت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے ”انسان نما جانور” پیدا کرنے کے خلاف خبردار کیا، جو صرف خود غرضی سے چلتے ہیں، اور ایسی پرورش کی وکالت کی جو اجتماعی ذہنیت کو پروان چڑھاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ معاشرے جو اجتماعی بہبود کو انفرادیت پر ترجیح دیتے ہیں، ترقی کرتے ہیں، جبکہ وہ جو خود غرضی میں بٹ جاتے ہیں، زوال پذیر ہوتے ہیں۔ بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے اس اہم موضوع پر ورکشاپ کے انعقاد کو خوش آئند قرار دیا اور منتظمین کو مبارکبا بھی دی۔