بنوں واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کے لئے چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کو خط لکھیں گے، بیرسٹرڈاکٹر سیف
بنوں واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کے لئے چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کو خط لکھیں گے، بیرسٹرڈاکٹر سیف
وزیراعلی آج بروز جمعہ بنوں کا دورہ کرینگے، بیرسٹر ڈاکٹر سیف کی پریس کانفرنس
پشاور:وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات و تعلقات عامہ بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا کہ صوبائی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں صوبے میں امن و امان اور بنوں واقعے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر بات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ بنوں میں دو نا خوشگوار واقعات پیش آئے ایک واقعہ 15جولائی کو بنوں کینٹ پر دہشتگردوں کے حملے کا تھا جس کا مقابلہ کرتے ہوئے سیکیورٹی اہلکاروں نے تمام حملوں آوروں کو ہلاک کیا۔ دہشتگردوں کیساتھ مقابلے میں فوجی جوان بھی شہید ہوئے جبکہ 19 جولائی کو مقامی تاجروں نے بنوں میں غیر سیاسی امن مارچ کی کال دی جس میں مقامی افراد نے بھرپور شرکت کی۔ امن مارچ کے اختتام پر دوسرا ناخوشگوار ا واقعہ پیش آیا،انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اور مقامی انتظامیہ نے مظاہرین کے نامزد کردہ قبائلی عمائدین پر مشتمل وفد سے مذاکرات کئے جبکہ اس تمام عمل کی نگرانی وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا خود کررہے تھے۔قبائلی عمائدین پر مشتمل وفد کو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے اپیکس کمیٹی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔ اپیکس کمیٹی اجلاس کے فیصلوں کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے بیرسٹر سیف نے کہا کہ دہشتگرد ہر روپ میں قابل مذمت ہیں اور ان کے خلاف بلا تفریق کاروائی کی جائے گی۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ نے پولیس کو احکامات دئیے ہیں کہ اگر کوئی بھی غیر سرکاری شخص مسلح پایا گیا تو اسے گرفتار کر کے سخت قانونی کاروائی کی جائے گی۔ مزید براں، کسی بھی غیر سرکاری مسلح گروہ کے دفاتر، اڈے یا چیکنگ غیر قانونی ہے اور ان کے خلاف پولیس بلا تفریق ایکشن لے گی۔ یہ امر تمام صوبے کیلئے ہے۔ آپریشن کے متعلق عسکری اداروں نے واضح بتادیا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں اس لئے صوبے میں کوئی آپریشن نہیں ہو رہا۔ مقامی طور پر دہشتگرد عناصر کے خلاف کاروائی پولیس اور سی ٹی ڈی کریں گی جس مقصد کیلئے انکی استعداد بشمول نفری، گاڑیاں، بکتر بند، آتشیں ہتھیار بڑھائیں جارہے ہیں۔ البتہ کچھ علاقوں کی نوعیت، جغرافیہ اور بارڈر سے نزدیکی ایسی ہے کہ افواج پاکستان کی مدد کے بغیر کاروائی ممکن نہیں۔ ایسی صورت میں حالات کے مطابق کاروائی کی جائے گی تاکہ سی ٹی ڈی اور دیگر اداروں کی استعداد اس قابل ہوسکے۔پولیس کو ہدایت جاری کر دی گئی ہے کہ فوری طور پر باقاعدہ اور ہمہ وقت گشت کو یقینی بنائے اور موجودہ نفری اور گاڑیوں کے تمام صوبہ بشمول جنوبی اضلاع کو ترجیحی بنیادوں پر اضافی مدد فراہم کرے۔ نئی آسامیوں کی تخلیق میں بھی ان تمام علاقوں کو ترجیح دی جارہی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ مشکوک علاقہ جات و مدارس پر کاروائی CTD کی ذمہ داری ہے اور یہ کاروائی CTD کرے گی۔چونکہ سرحدی قبائلی اضلاع کے عوام مقامی قبائل کے ساتھ تجارت پر انحصار کرتے ہیں جس کیلئے مختلف سرحدوں پر نقل و حرکت ہوتی رہی ہے۔ جیسے کہ طورخم، خرلاچی، انگوراڈہ۔ اسی طرح غلام خان اور باجوڑ و مہمند کے روایتی بارڈرز پر بھی تجارت کی اجازت دی جائے(اس سلسلے میں کیس وفاقی حکومت کے پاس پہلے سے پیش ہے)۔ اس سے مقامی روزگار ملے گا اور خوشحالی بھی آئے گی اور قانونی کاروبار سے سمگلنگ کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی اور محصولات میں بھی آمدن ہوگی۔عوام اور اداروں کے مابین بعض اوقات غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں جن کا فوری اور مقامی حل نہایت ضروری ہے۔ ہر کمشنر کی سطح پر کمیٹیاں مقرر ہونگی جن میں عوامی نمائندے، سول، عسکری اور پولیس کے نمائندے ہونگے جو ایسے کسی بھی واقعہ یا مسئلہ پر فوری جرگہ بلائیں گے اور قابل عمل حل نکالیں گے۔ تاکہ عوام اور تمام ادارے ملکی امن اور ترقی کیلئے ہم آہنگی سے مشترکہ لائحہ عمل بناکر آگے بڑھ سکیں۔ ایسی کمیٹیاں ضلعی سطح پر بھی تشکیل دی جائیں گی۔ بنوں واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کیلئے عدلیہ کو درخواست دی جائے گی۔ تاہم حکومت اپنی انکوائری بھی کرائے گی اور ذمہ داران کا تعین کر ے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت اور خصوصا وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ اور گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے عزم استحکام کی طرح بنوں واقعے پر بھی سیاست چمکانے کی کوشش کی اور انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیانات دئے۔ اتنے اہم قومی معاملے پر غیر ذمہ دارانہ بیانات دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس ٹولے نے ہمیشہ سیاسی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی حالانکہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سردار علی امین گنڈاپور کی بروقت مداخلت سے بنوں میں حالات سازگار ہوگئے تھے۔ بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے مزید کہا کہ وزیر دفاع خواجہ آصف عملی اقدامات کی بجائے صرف سیاسی بیان بازی سے کام لے رہے ہیں ملکی سرحدات پر وفاقی ادارے تعینات ہیں مگر وفاقی حکومت خیبر پختونخوا حکومت کے خلاف زہریلہ پروپیگنڈا کر رہی ہے۔